اشاعتیں

مولانا ابوالکلام آزاد (١)

مولانا ابوالکلام آزاد (١) تاریخ اور اردو کی کتابوں میں اکثر مولانا ابوالکلام آزاد کی تصویر دیکھی ہوگی- مولانا آزاد 1888 نومبر کے مہینے میں شہر مکّہ میں پیدا ہوئے مولانا آزاد کے والد  کا نام خیرالدین اور والدہ کا نام عالیہ بیگم تھا- مولانا آزاد ہمارے ملک کے ایک بڑے سیاسی رہنما اور عالم وفاضل ہیں- اردو کے ایک ممتاز نثر نگار ہیں- اور قرآن وحدیث کا ان کا مطالعہ وسیع ہے- وہ بچپن میں شاعری بھی کرتے تھے- 13 سال کی عمر میں ایک اخبار کے مدیر بھی تھے- مولانا آزاد کا خاندان جب اپنے وطن دہلی لوٹا تو دہلی کو اپنا مسکن بنایا- مولانا آزاد اکثر آگرہ کے تاج محل میں بیٹھ کر اپنا وقت گزارتے تھے- مولانا آزاد دس سال کی عمر سے ہی شاعری کرنے لگے تھے- اس کے علاوہ انھوں نے الہلال اور البلاغ جیسے اہم رسالوں کی ادارت بھی کی- ان کی وفات 1958 میں ہوئی- وہ دہلی میں مدفون ہیں- آپ آزاد ہندوستان کے وزیر تعلیم تھے- 2012 سے ہندوستان میں 11 نومبر کو یوم تعلیم کے نام سے منایا جاتا ہے- سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں   

حسن سلوک

حسن سلوک شرافت اور حسن سلوک کا براہ راست تعلق حسن اخلاقسے ہے- اخلاق، خلق کی جمع ہے- اخلاق مراد اچھی عادتیں، جس کی تکمیل کے لیے رحمت دو عالمﷺ تشریف لاۓ- اسکا تعلق حقوق و حدود، تہذیب و عذن، حسن گفتار، حسن رفتار، حسن کردار اور تمام آداب حیات و ضابطہ، اخلاق سے ہے- اخلاق ایسا جوہر ہے- جو کسی فرد کو سماج میں معزز شخصیت بناتا ہے- مہزب سماج کا موقر رکن بناتا ہے- اور مہزب طرز معاشرت کا مثالی فرد بناتا ہے- اس جوہر کی قدر کرنی چاہیے- اور خلوس اتنا برتنا چاہیے کہ زندگی کا کوئی گوشہ اخلاق حسنہ س خالی نہ ہو- حضورﷺ کو اخلاق بہت محبوب تھا- یہی وجہ تھی کہ آپﷺ کا بڑے سے بڑا دشمن بھی آپﷺ کا گرویدہ ہو جاتا تھا- اور ایمان لے آتا تھا- مشکل وقت اور آزمائش کی گھڑی میں شرافت اور حسن سلوک کا دامن ترک نہ کرنا مومن کی شان ہے- جس طرح سونا جتنا پثتا ہے- اتنا ہی خالص ہو جاتا ہے- اسی طرح مصیبت کی گھڑی مومن کی آزمائش بھٹی ہوتی ہے- جس میں ٹاپ کر اسکا ایمان اور مضبوط ہو جاتا ہے- شرافت آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثال بن جاتی ہے-

میری پسندیدہ شخصیت (شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ)

میری پسندیدہ شخصیت (شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ) وہ کون سا مسلمان طالب علم ہے کہ جس نے '' گلستاں"، "بوستاں"، اور ان کے مصنف شیخ حضرت سعدی رحمتہ اللہ علیہ کا نام نہ سنا ہو- ایک وقت تھا کہ یہ کتابیں اسلامی تعلیم کا ایک لازمی حصّہ سمجھی جاتی تھیں- شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ کا اصل نام شرف الدین اور لقب مصلح الدین تھا- اپنے محسن سعد زنگی والی مارس کی نسبت سے اپنا لقب سعدی اختیار کیا اور آج علمی و ادبی دنیا میں اسی نام سے جانے جاتے ہیں- آپ تقریباً 1184 میں ایران کے مشہور شہر شیراز میں پیدا ہوئے- سعدی نے اپنی ابتدائی تعلیم بغداد کے مدرسہ "نظامیہ" میں حاصل کی 1226 میں تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے 30 سال اسلامی مملکت کی سیرو سیاحت اور اہل علم حضرات سے ملاقاتوں میں بسر کیے- آخر تھک ہار کر 1251 میں اپنے وطن شیراز پہنچ گئے- اور زندگی کا باقی حصّہ وہیں تالیف میں گزاردیا- آپ سو سال سے بھی طویل عمر پاکر 1291 میں وفات پا گئے- آپ کا مزار شیراز میں آج بھی موجود ہے-      

کھیلوں کی اہمیت

کھیلوں کی اہمیت زندگی ہمیشہ کھیلو سے جڑی رہی ہے- کھیلو سے ہمیں بھرپور تفریح ملتی ہے- دل کے ساتھ ہمارے جسم کے لیے بھی معاون ہوتے ہیں- کھیلو سے جسم کی اچھی ورزش ہوتی ہے- جسمانی طاقت کی بھی نشوونما ہوتی ہے- کھیلوں سے ہم میں نظم و ضبط باہمی امداد بہادری اور چوکنا رہنے کی خصوصیات بڑھتی ہیں- جو لوگ کھیل کود اور ورزش میں دلچسپی نہیں لیتے ان کا جسم کبھی صحت مند اور سڈول نہیں بن پاتا طرح طرح کی بیماریاں ان کے جسم کو اپنا گھر بنا لیتی ہیں- انہیں اپنی زندگی ایک بوجھ کی طرح لگنے لگتی ہے- جس اسکول میں کھیل کے میدان اور سامان کی سہولت ہوتی ہے- وہ اسکول دوسرے اسکولوں سے زیادہ اہمیت رکھتاہے- کھیلوں میں ڈوب کر طلبہ کچھ دیر کے لیے کتابی علم کے بوجھ سے نجات پا لیتےہیں- کھیلوںسے انکی جسمانی نشوونما ہوتی ہے- اور اس کے ساتھ ہی ساتھ دل بھی خوش رہتا ہے- آج کے دور میں کھیلوں کی اہمیت ہیں- آج کچھ کھیل تو پیشہ وارانہ اہمیت حاصل کر چکے ہیں- کرکٹ، ٹینس، فٹ بال، بین الاقوامی مقابلے ہیں- ان میں کامیاب کھلاڑیوں کو اچھی خاصی دولت ملتی ہے- ان کھیلوں سے امداد اور ہمدردی کا جزبہ بڑھتا ہے- سچ مچ کھیل ہماری زندگی ...

اف! یہ مہنگائی

اف! یہ مہنگائی ہر حکومت یہی وعدہ کرتی ہے کہ وہ مہنگائی کم کر دے گی- لیکن پچھلے پچاس سالوں میں  مہنگائی کی پتنگ بغیر ڈور کے آسمان کو چھوتی جا رہی ہے- بغیر ڈور کی اسلئے کہ اگر ڈور ہوتی تو کوئی نہ کوئی تو اسے کھینچ کھانچ کر نیچے لاتا- بزرگ بتاتے ہیں کہ پہلے دو آنہ یہ گیہوں تھا- ایک روپنے میں دونو جیب بھر کے کاجو آتے تھے- آج دس روپنے میں بھی گھن والا خراب گیہوں صرف ایک کلو ملتا ہے- اب تو دو روپنےکی مونگ پہلی بھی صرف چند دانے آتی ہے- کاجو اور بادام تو اب صرف دیکھنے کی چیزیں رہ گئی ہیں یا پھر عید پر چند دانے سوئیں میں ڈالے جاتے ہیں- یہ مہنگائی ہر چیز میں بڑھ رہی ہے- سستا اگر خون ہے تو مہنگا ہر حال پانی ہے- غریب آدمی کی تنخواہ تو مہنگائی کے حساب سے نہیں بڑھتی- دن رات محنت مزدوری کرتا ہے- اسکے گھر کے دوسرے افراد بھی محنت مزدوری کرتے ہیں- اکثر اخبار میں آتا ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں کے ساتھ کنویں میں کود گئے- اس کے گھر کے لوگوں نے زہر کھا لیا- اف! یہ مہنگائی! اب تو جھونپڑا بنانا مشکل ہے- شادی بیاہ کرنا مشکل ہے- اور سچ تو یہی ہے کہ مارنا بھی مشکل ہے- کیوںکہ کفن دفن میں بھی اب بہت خرچ آ...

میرا یادگار سفر

میرا یادگار سفر ٹرپ میں جانے کے لیے صبح سات بجے اسکول بلایا گیا تھا- میں ساڑے چھ بجے ہی اسکول آگیا- جب میں اسکول پہنچا تو کچھ طلبا مجھ سے بھی پہلے سے حاضر تھے- بس ٹھیک ساڑے سات بجے روانہ ہوئی- موسم بڑا خوش گوار تھا- ہر طرف ہریالی تھی- منظر بڑا سہانا تھا- خوبصورت پہاڑی تھی- درمیان میں ندی به رہی تھی- اور کولڈ ڈرنک کی دکانیں تھیں- ہوٹل بھی تھے- ہم نے پہلے غار دیکھنے کے لیے ٹکٹ خریدا- پتھروں کے غار تھے- پتھروں کی مورتیاں تھیں- کچھ غار میں بالکل اندھیرا تھا- ان میں لائٹنگ کا انتظام تھا- ان غاروں میں تصویروں کی رنگین پینٹنگ تھیں- سر نے بتایا کہ یہ ہزاروں سال پرانی پینٹنگ ہیں- مجھے حیرت ہو رہی تھی- اتنے دنوں بعد بھی تصویروں کا رنگ نہیں اڑا تھا- غار دیکھنے کے بعد ہم لوگ آبشار پر پہنچے- وہاں دوپہر کا کھانا کھایا- اسی دوران ایک طرف سے شور بلند ہوا- ہم بھی دوڑے- وہا ہم نے ایک بارہ فٹ لمبا ازدھا دیکھا- وہ ازدھا ایک خرگوش کو نگلنے کی کوشش کر رہا تھا- لوگوں کا شور سن کر سیکورٹی کے لوگ دوڑ پڑے- انہوں نے بے ہوشی کا بڑا انجکشن استمعال کرکے ازدھے کو بےہوش کیا اور اٹھا کر لے گئے- شام میں چھ بج...

برسات کا موسم

برسات کا موسم گرمی سے سب کا برا حال تھا- انسان، جانور اور پرندے سب پریشان تھے- آخر الله کی رحمت جوش میں آیئ- آسمان پر کالے کالے بادل چھا گئے- ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ئیں چلنے لگیں- اور بوندا باندی شروع ہوگئی- ہم بچوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا- اور دیکھتے ہی دیکھتے موسلادھار بارش شروع ہوگئی-  ہم بچے بارش میں نہا رہے تھے- خوشی سے اچھل کود رہے تھے- شور مچا رہے تھے- جھیلوں کے پنڈال بھر کر بہنے لگے- نالیاں اور گڑیں بھرکر بہنے لگیں- سڑکوں پر پانی جمع ہو گیا لوگ پھسل پھسل کر گر رہے تھے- میدان میں کیچڑ ہو گیا- لوگوں کے پیر دھنسنے لگے- سائیکل کیچڑ سے بھر گئی- لوگ اپنی سائیکل ہاتھوں پر اٹھا کر میدان پار کر رہے تھے-  کیچڑ سے لوگوں کے کپڑے خراب ہو گئے-    ہم بچے اپنی مستی میں جھوم رہے تھے- اچانک ہوا طوفانی ہوگئ- بجلی زور سے کڑکنے لگی- بچےڈر گئے- طوفانی ہوا میں جھونپڑے کی چھت اڑ گئی- سارا پانی گھر میں آنے لگا- ماں جلدی جلدی سامان کو محفوظ کرنے کی کوشش کرنے لگیں- میں ان کا ہاتھ بٹانے لگا- میں شور شرارت اور مستی بھول گیا اور سوچنے لگا- برسٹ کا یہ موسم کیسا گزرے گا؟